The modern challenge of life lies in the overwhelming influx of thoughts entering our minds, often becoming the root cause of our unhappiness. True happiness is found in the stillness of the mind, a concept that many fail to grasp. Ironically, in our relentless pursuit of happiness, we inadvertently allow our thoughts to flow unchecked, leading to further discontent.
What most of us overlook is that thoughts, like tangible objects, are within our power to choose. Moreover, we are not defined by our thoughts; they are transient constructs, not the essence of who we are. Interestingly, even the notion that "we are not our thoughts" is itself just another thought—a reflection of the profile we carry about ourselves.
This profile, shaped by past experiences and societal roles, dominates our existence. We unconsciously live according to this narrative, mistaking it for our identity. Yet, this profile is merely a tool, a necessity for navigating daily tasks and human activities. Recognising this distinction can free us from the weight of unnecessary mental clutter, opening the door to a deeper, more authentic state of being.
زندگی کا موجودہ چیلنج یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں خیالات کا بے تحاشہ بہاؤ داخل ہو رہا ہے، جو اکثر ہماری ناخوشی کی بنیادی وجہ بن جاتا ہے۔ حقیقی خوشی ذہنی سکون میں پوشیدہ ہے، لیکن یہ حقیقت بہت سے لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خوشی کی تلاش میں ہم اپنے خیالات کے بہاؤ کو غیر منظم ہونے دیتے ہیں، جو مزید بے چینی کا سبب بنتا ہے۔
ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ خیالات بھی دیگر اشیاء کی طرح ہماری مرضی پر منحصر ہیں۔ مزید یہ کہ ہم اپنے خیالات نہیں ہیں؛ یہ خیالات عارضی ہیں اور ہماری اصل حقیقت کو بیان نہیں کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ "ہم اپنے خیالات نہیں ہیں" یہ بھی ایک خیال ہی ہے، جو ہماری خود کی پروفائل کو بیان کرتا ہے۔
یہ پروفائل، جو ماضی کے تجربات اور سماجی کرداروں سے تشکیل پاتی ہے، ہماری زندگی پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ہم لاشعوری طور پر اس کہانی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، اسے اپنی شناخت سمجھتے ہوئے۔ لیکن حقیقت میں یہ پروفائل محض ایک آلہ ہے، جو روزمرہ کے کاموں اور انسانی سرگرمیوں کے لیے ضروری ہے۔ اس فرق کو سمجھنا ہمیں غیر ضروری ذہنی الجھنوں سے آزاد کر سکتا ہے اور ایک گہرے اور زیادہ حقیقی وجود کے دروازے کھول سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment